حالیہ عدلیہ بحران کے تناظر میں سپریم کورٹ بار الیکشن کے نتائج اہم


آج سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا سالانہ الیکشن ہے اور اس کا نتیجہ حالیہ عدلیہ کے بحران پر بھی اثر انداز ہوگا جہاں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے انتظامیہ نے اعلی عدالتوں کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت بڑھا دی ہے۔

دونوں صدارتی امیدواروں کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ منیر کاکڑ پروفیشنل گروپ اور رؤف عطا آزاد گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آزاد گروپ اہم مسائل پر موجودہ وفاقی حکومت کی حمایت کرتا آٰرہا ہے ۔

اسی گروپ نے 26 ویں آئینی ترمیم پر بھی اعتراض نہیں کیا ہے۔ اس وقت پاکستان بار کونسل میں انڈیپنڈنٹ گروپ کی ہی اکثریت ہے۔ دوسری طرف پروفیشنل گروپ 26 ویں آئینی ترمیم کی بھرپور مخالفت کر رہا ہے۔ اس گروپ کے نمائندے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے اور کہ رہے ہیں کہ اس ترمیم میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

پروفیشنل گروپ کے حامد خان، اشتیاق چوہدری جیسے بعض ارکان کا پی ٹی آئی سے بھی تعلق ہے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

پروفیشنل گروپ کے ارکان کہ رہے ہیں کہ حکومت انڈیپنڈنٹ گروپ کو مکمل حمایت کر رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ اعلی عدالتوں میں نامزدگیوں کے لیے وکلا کی سی ویز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اسی طرح انڈیپنڈنٹ گروپ کو وکلا سے متعلق اپنے ویلفیئر پروجیکٹس کا بھی فائدہ حاصل ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس گروپ کے امیدوار رؤف عطا کا تعلق جے یو آئی سے ہے اور وہ کامران مرتضی کے جونیئر ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججز ہمیشہ ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کی رائے تو وزن دیتی ہے۔ اس لیے ایسوسی ایشن کے الیکشن کے نتائج عدلیہ کے مستقبل کے کردار پر اثر ڈالیں گے۔

واضح رہے کہا جارہا ہے کہ پیر کے روز سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023پر بات چیت نہیں کی گئی۔ ایک وکیل نے بتایا کہ عدالت میں جسٹس منصور علی شاہ کو نمایاں کردار دیا گیا۔ فل کورٹ اجلاس میں کہا گیا کہ ججز متحد ہیں۔

وکلا کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا جواز پیش کرنے میں کیسز کے بیک لاگ کو بیان کیا گیا تھا ۔ اسی لیے ججوں نے فیصلہ کیا  ہے کہ پہلے اس بیک لاگ کو جلد از جلد ختم کیا جائے ۔ تاہم دیگر وکلا کا خیال ہے کہ فل کورٹ اجلاس میں آئینی ترمیم پر بھی بات چیت ہونا چاہیے تھی کیونکہ یہ عدالتی آزادی پر حملہ ہے۔

اس وقت تمام نظریں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان پر لگی ہوئی ہیں جہاں پر آئینی بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے فیصلہ ہونا ہے۔ بعض حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ سپرسیڈ ہونے والے دونوں جج ریٹائر ہوجائیں گے۔ تاہم دونوں ججوں نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کرکے حکومتی حلقوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ ان دونوں ججوں کا استعفی عدالتوں کو کمزور کرنے والے حلقوں کو مزید مضبوط کرے گا۔