از خود توہینِ عدالت نوٹس: فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول

سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود توہینِ عدالت نوٹس کی سماعت کے دوران فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کر رہا ہے۔

مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگی تھی، پریس کانفرنس میں بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واؤڈا سے سوال کیا کہ آپ کے وکیل نہیں آئے؟ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے؟

فیصل واؤڈا نے جواب دیا کہ جی! میں نے بھی معافی مانگی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئین کے آرٹیکل 66 میں آپ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات کر سکتے ہیں، آپ لوگوں کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہیں، آئندہ اس معاملے میں ذرا احتیاط کریں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واؤڈا کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ آپ پارلیمان میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، امید ہے آپ بھی ہماری عزت کریں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے عوام کو نقصان ہو گا، پارلیمان میں آرٹیکل 66 سے آپ کو تحفظ ہے، باہر گفتگو کرنے سے آپ کو آرٹیکل 66 میسر نہیں ہو گا۔

ٹی وی چینلز کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی پیش

سپریم کورٹ آف پاکستان میں از خود توہینِ عدالت نوٹس کی سماعت کے دوران ٹی وی چینلز کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی پیش ہوئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کے کلائنٹس کہاں ہیں؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 26 چینلز کی جانب سے میں ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے کسی کلائنٹ نے ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کروایا، آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تمام چینلز کے نمائندگان سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا چکا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں، چینلز کے نہیں، توہینِ عدالت کیس میں چینلز کے دستخط ہونا لازمی ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے، کیا یہ درست ہے؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہارِ رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ صحافت میں آزادیٔ اظہارِ رائے کی وضاحت 200 سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ 200 سال سے کیوں؟ 1400سال سے کیوں شروع نہیں کرتے؟ آپ کو 1400سال پسند نہیں؟ 200 سال کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں 200 سال کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔

وکیل فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ آئین کا آغاز بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے ہو رہا ہے، آئین میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ آپ نے بطور ٹی وی چینلز ان کی گفتگو پھیلائی، آپ ان پر توہین کی تہمت لگا رہے ہیں، خود کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کیا، بیرونِ ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، وہاں پریس کانفرنس سن لی جاتی ہے پھر کچھ مواد کاٹ لیتے ہیں، اب آپ امریکا کی مثال نہیں دیں گے، آپ نے خود مان لیا توہین ہوئی ہے پھر آپ کو نوٹس کر دیتے ہیں، یہ تو اب آپ کے اعتراف پر توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔

وکیل فیصل صدیقی نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو جواب دیا کہ مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے، آپ جو بھی فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پر پورا اعتبار ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ چینلز کے دستخط سے جواب دیں تو دے دوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھیل کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہم بھی پھر آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔