ایس بی سی اے میں 17 ارب کا کھیل ، کون کون شامل؟

ایک بہت بڑا کھیل یا پھر کرپشن اور کمیشن کی نئی کہانی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں شروع ہو چکی ہے ۔ گزشتہ 45 سالوں سے ایس بی سی اے کے اکاؤنٹ 2 نجی بینکوں میں موجود تھے جس میں قریبا 17 ارب روپے رکھے گئے تھے مگر ایک دم فیصلہ کیا گیا اور یہ پیسے سندھ بینک میں ٹرانسفر کیے جارہے ہیں۔

مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایس بی سی اے کے ڈی جی کو ایک اعلی شخصیت کی طرف سے کہا گیا کہ تمام بینکوں سے رقم نکال کر سندھ بینک میں ٹرانسفر کی جائے ۔

کھیل کا پہلا حصہ یہ ہے کہ آج سے کئی برسوں پہلے ایس بی سی اے نے ایک بیٹرمنٹ فنڈ ، سندھ بینک میں کھولا تھا۔ بیٹرمنٹ فنڈ وہ رقم ہوتی ہے جو ایس بی سی اے کراچی کے ان تمام اداروں کے لیے رکھتی ہے جس سے مختلف کام لینے ہوتے ہیں ۔ مثلا کے ڈی اے ، کے ایم سی وغیرہ ، یہ تمام کا تمام فنڈ جو کراچی کے مختلف اداروں کے لیے رکھا گیا تھا اسے سندھ کے دیگر اظلاع میں اس طرح سے تقسیم کیا گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نا ہوئی ۔ اس لیے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا فنڈ اس لیے رکھا جارہا ہے کہ اس فنڈ کو کسی اور مد میں استعمال کیا جاسکے ؟

اب اآئیے کہانی کے دوسرے رخ پر، ایچ بی ایل میں قریبا 2 ارب روپے موجود تھے ۔ اس رقم کو ٹرانسفر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ڈی جی یعنی مشتاق سولنگی کے پاس اتھارٹی ہو ۔

کہا جاتا ہے کہ رشید سولنگی نے اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دی اور جب بائیو میٹرک ہوا تو ان کا ریکارڈ موجود نہیں تھا ۔ یہ افواہ زبان زد عام ہوئی کہ کہیں یہ شناختی کارڈ جعلی تو نہیں ؟ فورا اس فوٹو کاپی کو ہٹیا گیا اور پھر دوسرا شناختی کارڈ دیا گیا ۔ پہلا سوال کہ کیا یہ اطلاع درست ہے تو رشید سولنگی کے پاس کئی شناختی کارڈ موجود ہیں؟

پھر کہانی آئی الائیڈ بینک کی جہاں قریباً 15 ارب موجود تھے جس میں سے 13 ارب فکس اکااونٹ میں اور ڈیڑھ ارب ایسے تھے جسے استعمال کیا جاسکتا تھا ۔ جمعہ کے روز یہ ڈیڑھ ارب روپے سندھ بینک جاچکے ہیں ؟

لیکن کیا سندھ بینک ایک شیڈول بینک ہے ؟ تو جواب ہو گا نہیں؟ تو پھر اتنی بڑی رقم کیوں شفٹ کی جارہی ہے ؟ کئی سوالات سے بھر پور یہ کہانی کہیں فنڈ کے استعمال کی تو نہیں یا پھر کوئی کمیشن کا معاملہ تو نہیں ؟ سسٹم کو بند کر دینے والوں نے پیسہ کمانے کا نیا سسٹم تو نہیں نکالا ؟